پیا سے لگی لگن

بسم اللہ الرحمن الرحیم”
سلام تمام چاہنے والوں کو اپ سب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔۔۔۔ نیو ناول حاضر ہے اچھا سا رسپانس دیں تاکہ میں اگے کنٹینو کر سکوں ناول۔۔شکریہ

Rude Hero_Force Married Romantic Novel _Most Riding _Novel
_Tum_se_lagan_lagi
Update kisat number 01_02
Posted;by;*STORIES HUB*
🔥””پیا سے لگن لگی””🔥
پہلی دوسری قسط

وہ دونوں تیز ی سے بھاگ رہے تھے آج پہلی بار گاؤں کی کسی لڑکی نے گاؤں کی عزت کو یوں اپنے پیروں کے نیچے روندا تھا ۔

اسے کوئی پرواہ نہ تھی کہ اس کا یہ قدم اس کے خاندان اس کے ماں باپ بھائیوں کو سر اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑے گا

اسے کسی کی کوئی فکر نہیں تھی اسے اگر کسی سے مطلب تھا تو صرف اپنے محبوب سے اپنے پیار سے اسے صرف اپنی محبت چاہیے تھی

اسے اپنی محبت کو ثابت کرنا تھا اپنے محبوب کو بتانا تھا کہ وہ کتنا پیار کرتی ہے اس سے کہ وہ اس کے لیے اپنے والدین اپنا گھر بار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے ساتھ بھاگ آئی ہے

لیکن ناجانے اس کے اس قدم کی بھنک کیسے گاؤں کے سرپنچ سید مرشد دارم شاہ سائیں کو لگ گئی تھی ۔

اور اب ان کے پیچھے مرشد سائیں کے لوگ آ رہے تھے اسے اس کی غلطی کی سزا دینے اسےنہیں پتا تھا کہ اب اس کا قتل ہو گا یا اسے زندہ دیوار میں چنوا دیا جائے گا اس نے تو بس یہ سن رکھا تھا کہ مرشد سائیں اب تک کے سب سے ظالم و جابر سردار ہیں جو کسی کی کوئی بھی غلطی معاف نہیں کرتے ۔

بلکہ غلطی کرنے والے کو زندہ زمین میں گھاڑ دیتے ہیں لیکن شبنم نے تو کوئی غلطی نہیں کی تھی اس نے سچی محبت کی تھی ہاں یہ غلطی ضرور ہوئی تھی کہ وہ ثاقب کی نسل وخاندان نہیں جانتی تھی اور محبت میں بھلا یہ ساری چیزیں کہاں دیکھی جاتی ہیں محبت میں تو صرف محبت کی جاتی ہے

اپنے محبوب کو ہر چیز سے اہم سمجھا جاتا ہے اپنے آپ کو اس کی امانت سمجھا جاتا ہے اور خود کو اپنے محبوب کا کر دیا جاتا ہے وہ بھی تو یہی کر رہی تھی اپنا آپ بھلا کر صرف اور صرف اپنے محبوب کی ہونے جا رہی تھی اس میں کیا غلط تھا ۔۔۔۔۔؟

محبت میں غلط تو کچھ بھی نہیں ہوتا تو پھر یہ سب لوگ اس کی محبت کے دشمن کیوں بن گئے تھے۔۔۔؟

اگر ان سب کو ثاقب قبول نہیں تھا تو کیوں نہیں جانے دے رہے تھے اسے ثاقب کے ساتھ اگر وہ اسے ثاقب کے ساتھ قبول نہیں کر سکتے تو کیا ہوا وہ اس کے لئے اہم تھا وہ اس کی زندگی تھا وہ سب پر صاف الفاظ میں واضح کر چکی تھی کہ اگر ثاقب کے ساتھ اس کی شادی کے لئے وہ لوگ راضی نہ ہوئے تو وہ یا اپنی جان دے دے گی یا پھر گھر سے بھاگ جائے گی اور اب وہ ایسا ہی کر رہی تھی

کیونکہ اب ثاقب ہی اس کے لئے اس کا سب کچھ تھا وہ ندی کے قریب سے گزرتے پہاڑ کے اوپر آ چکے تھے یقیناً یہ راستہ غلط تھا لیکن اس وقت محبت میں اندھی ہوئی شبنم کے لیے ہر راستہ صیح تھا

وہ پہاڑ کے راستے نیچے کی جانب اترنے لگے جب احساس ہوا کہ پہاڑ سے نیچے تو مرشد سائیں کے لوگ کھڑے ہیں اس نے ثاقب کو واپس اوپر چلنے کے لیے کہا

لیکن اب ان کے پیچھے آتے لوگ بھی پہاڑ کے اوپر ہی کھڑے انہیں دیکھ رہے تھے دائیں بائیں کہیں کوئی راستہ نہ تھا اب وہ اپنے انجام سے سچ مچ میں خوف زدہ ہوگئے تھے

°°°°°

مکمل کالے لباس پر سندھی چادر کندھے پر ڈالے وہ سندھی چپل میں بھاری قدم اٹھاتا اس کے پاس آرکا شبنم کا وجود کانپ رہا تھا

وہ سرخ آنکھوں میں غصہ لیے ایک نظر اس کی طرف دیکھتا ثاقب کی طرف بڑھا شبنم نے گھبرا کر اسے دیکھا تھا

مرشدسا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سر پر دوپٹہ لو لڑکی اگر اپنے باپ کی پگڑی پر پیر رکھتے شرم نہیں آئی تو کم از کم اپنے بھائیوں کو ننگے سر رسواتو نہ کرو وہ بھاری گھمبیر آواز میں دھاڑا

شبنم کو بھی اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تو وہ فورا اپنا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی

تم ہمارے گاؤں کی لڑکیوں کو باغی کروگے۔۔۔۔۔ وہ زناٹے دار تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر لگاتے ہوئے غرایا تو شبنم تڑپ کر اس کی جانب بڑھی

رحم سائیں رحم یوں نہ کریں اللہ سائیں کا واسطہ آپ کو رحم کریں۔ ۔۔

یوں محبت کرنے والوں کے بیچ دیوار نہ بنیں دو محبت کرنے والوں کو جدا نہ کریں بے رحم نہ بنے سائیں وہ مرشد سائیں کے پیروں میں گری التجا کرنے لگی

واجد علی سنبھالو اپنی بیٹی کو اور جس طرح سے یہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلی ہے اسی طرح اندھیرے میں لے جاؤ اسے واپس تمہاری عزت رہ جائے گی

اور کل ہی اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ اس کے نکاح کی تاریخ نکلوا لو وہ شبنم کی التجائیں نظر انداز کرتا واجد علی سے مخاطب ہوا جو سرخ آنکھوں میں نفرت لیے نفرت سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہا تھا

حکم سائیں میں کل ہی اس کا نکاح پڑھوا دوں گا لیکن اس حرام زادے کی لاش اسی جنگل میں دفنایئے گا تا کہ اس کا نام و نشان بھی کسی کو نہ ملے وہ ایک نظر ثاقب کو دیکھتے ہوئے مرشد سائیں سے بولا

اس کی فکر تم نہ کرو واجد علی یہ صرف تمہاری بیٹی کو نہیں میرے گاؤں کی عزت کو بھگا کر لے کر جارہا تھا اس کا انجام اس کی سوچ سے زیادہ بھیانک ہوگا تم اپنی بیٹی کو یہاں سے لے جاؤ

وہ غضب ناک نظروں سے ثاقب کو دیکھتا واجد علی سے گویا ہوا ۔

نہیں سائیں نہیں ایسا نہ کرے آپ کو اللہ سائیں کا واسطہ ایسا نہ کریں ہم مر جائیں گے ایک دوسرے کے بنا سائیں بے رحم نہ بنے سائیں کسی کی محبت کو یوں برباد نہ کریں آپ کو اللہ کا واسطہ وہ چیختے ہوئے فریاد کر رہی تھی جبکہ واجد علی اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر جارہا تھا جبکہ اب وہ پاگلوں کی طرح پیچھے کی جانب دیکھتی اپنے محبوب سے دور ہو رہی تھی اس کی چیخ و پکار پورے جنگل میں گونج رہی تھی

لیکن پھر اچانک فضا میں ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے ساتھ ہی جنگل میں عجیب طرح کے جانوروں کی آوازیں غرانے لگیں

نہیں سائیں نہیں آپ ایسا نہیں کرسکتے آپ نے ٹھیک نہیں کیا آپ نے دو محبت کرنے والوں کو جدا کیا ہے آپ نے دو محبت کرنے والوں کو برباد کیا ہے آپ بھی آباد نہیں رہیں گے برباد ہوں گے آپ

برباد ہوں گے آپ’ آپ بھی کبھی خوش نہیں رہیں گے آپ کو کبھی سکون نصیب نہیں ہوگا آپ بھی برباد ہوں گےسنا آپ نے۔ ۔۔۔؟

آپ کو آپ کی محبت کبھی حاصل نہیں ہوگی سائیں

آپ محبت کو ترسیں گے آپ کو کبھی آپ کی محبت قبول نہیں کرے گی آپ محبت کی بھیک مانگیں گے یہ بد دعا ہے میری وہ چیخ رہی تھی اس کی تکلیف و درد سے بھرپور آواز پورے جنگل کے سناٹے میں گونج کر واپس آ رہی تھی

چپ کر بدبخت کیوں بد دعائیں دے رہی ہے ان کو اللہ تعالی لمبی حیاتی دے حکم سائیں کو جنہوں نے رات کے اندھیرے میں ہماری عزت کا پاس رکھا ورنہ تو نے تو کوئی کسر نہ چھوڑی تھی واجدعلی اس سے کہتا اس کا بے جان وجود اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا لے کر جانے لگا

°°°°°
آج اس کی جاب کا پہلا دن تھا وہ جلدی سے گھر کے اندر آئی اور اپنی یونیفارم چینج کرکے اپنے کام میں مگن ہوگئی

جب اسے دوسری ملازمہ نے آکر بتایا کہ چھوٹی میڈم اسے روم میں بلا رہی ہیں وہ ہاں میں سر ہلاتی تیزی سے روم کی طرف چلی گئی

وہ جب سے یہاں کام کر رہی تھی اس نے ایک چیز بہت زیادہ نوٹ کی تھی کہ چھوٹی میڈم زیادہ کسی سے بھی بات نہیں کرتی

اور نہ ہی بڑی میڈم انہیں کسی سے بات کرنے دیتی ہیں لیکن وہ جب سے یہاں کام کر رہی تھی نہ جانے کیوں چھوٹی میڈم اسے بہت زیادہ پریشان اور ڈری سہمی سی لگتی تھی اس نے ایک دو دفعہ ان سے پوچھنے کی کوشش کی کہ آخر ان کے ساتھ مسئلہ کیا ہے ۔۔۔۔۔”

اور انہوں نے بھی اسے اپنی پریشانی کی وجہ بتانے کی کوشش کی تھی لیکن ہر بار جب بھی وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی تو کوئی نہ کوئی آ جاتا اور ان کی بات ادھوری رہ جاتی

وہ اتنی زیادہ ڈری ہوئی کیوں تھی یا انہیں کیا مسئلہ تھا وہ جاننا چاہتی تھی

شاید یہ صرف اسے ہی ایسا لگتا تھایا اس کی غلط فہمی تھی لیکن پھر بھی نجانے کیوں اسے یقین تھا کہ چھوٹی میڈم کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرورہے

اور وہ” وہ مسئلہ اس سے شیئر کرنا چاہتی ہیں اس نے کہیں دفعہ اسے اکیلے میں کمرے میں بلایا لیکن وہ اسے کبھی بھی کچھ بھی بتا نہیں سکیں

اسے بس یہ پتا تھا کہ اس گھر میں شادی ہونے والی ہے وہ پچھلے گیارہ دن سے اس گھر میں کام کر رہی تھی

اور دوسری ملازمہ نے اسے بتایا تھا کہ اگلے کچھ ہی دن میں چھوٹی میڈم کی شادی ہونے والی ہےکسی انگریز کے ساتھ لیکن آج صبح ملازمہ نے اسے بتایا کہ کل ہی چھوٹی میڈم کی شادی ہے جیسے لے کر وہ خود بھی سوچ میں پڑ چکی تھی

°°°°°

یس میم آپ نے مجھے بلایا وہ مودبانہ انداز میں کھڑی ان سے سوال کرنے لگی

ہاں نور پلیز ہیلپ می پلیز مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اگر تم نے میری مدد نہ کی تو میں بہت بڑے مسئلہ میں پھنس جاؤں گی پلیز انکار مت کرنا میں بہت زیادہ پریشان ہوں صرف تم ہی میری مدد کر سکتی ہو

اس کے پوچھنے کی دیر تھی کہ چھوٹی میڈم آنکھوں میں آنسو کا ڈھیر لئے اسں سے مدد کی التجا کرنے لگی

جی میڈم کیسی ہیلپ آپ کو کیا مدد چاہیے میں آپ کی مدد ضرور کروں گی وہ اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہنے لگی

یہی پے آ کر تو وہ بے بس ہوجاتی تھی اگر وہ کسی کی مدد کر سکتی تو ضرور کرتی تھی اور اس کی یہ عادت اسے اکثر بہت بڑے مسائل کا شکار کر دیتی تھی

میری موم میری شادی زبردستی کسی سے کروا رہی ہیں میں یہ شادی نہیں کرنا چاہتی میں اس آدمی کو بالکل پسند نہیں کرتی پلیز میری مدد کرو میں یہ شادی نہیں کر سکتی وہ آدمی بہت بُرا ہے میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں

اور اگر اس انسان سے میری شادی نہ ہوئی تو میں مر جاؤں گی میں کسی اور کی نہیں ہو سکتی میں اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں

وہ شخص میری جینے کی وجہ ہے اگر وہ مجھے نہ ملا تو میری زندگی کا بھی کوئی فائدہ نہیں پلیز نور صرف تم ہی میری مدد کر سکتی ہو اگر تم نے میری مدد نہیں کی تو میری موم زبردستی میری شادی اس آدمی سے کر دیں گئیں۔

میں یہاں اور کسی پر اعتبار نہیں کر سکتی کیونکہ ساری ملازمائیں میری موم کو بتا دیں گی میں صرف تم پر یقین کر سکتی ہوں اس لیے تمہیں یہ سب بتا رہی ہوں

میڈم میں آپ کی بات کو سمجھ رہی ہوں لیکن اس معاملے میں میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں۔ ؟ میرا مطلب ہے میں کیسے اس شادی کو روک سکتی ہوں۔ ۔؟ میں تو ایک عام سی ملازمہ ہوں وہ پریشانی سے کہنے لگی

بس مجھے اس گھر سے باہر نکلنے میں ہیلپ کردو میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی بس تم مجھے یہاں سے باہر نکال دو وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی جب کہ نور گہری سوچ میں جا چکی تھی

اگر وہ اس کی مدد نہ کر پائی تو وہ بے موت ماری جائے گی اس طرح زبردستی کے رشتے نبھانا آسان نہیں ہوتا یہ بات وہ بہت اچھے طریقے سے سمجھ چکی تھی

وہ سمجھوتے پر کسی کی زندگی برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی اگر آج اس لڑکی کی شادی اس آدمی کے ساتھ زبردستی کروا دی جاتی تو شاید کچھ عرصے کے بعد وہ دونوں الگ ہوجاتے لیکن اگر ان دونوں کی کوئی اولاد ہوتی تو وہ برباد ہو جاتی بالکل اس کی طرح اور وہ اپنی جیسی زندگی کسی اور کو گزارتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی تھی

°°°°°°°°°°
اس کی چھٹی کا وقت ہو گیا تھا وہ روز کی طرح اپنا یونیفارم چینج کرکے خاموشی سے گھر کی جانب روانہ ہوئی

روز کی طرح آج نجانے کیوں اس نے واچ مین کو گڈبائے نہیں بولا تو وہ کافی پریشان ہوا کیونکہ وہ جب سے یہاں کام کر رہی تھی اسے صبح آتے ہوئے سلام بھی کرتی تھی اور گڈ بائی اور خداحافظ بول کر بھی جاتی تھی

جو کہ اب واچ مین کی بھی عادت بن چکا تھا یہ ہنستی مسکراتی لڑکی اسے بھی بے حد پسند تھی ارے نور آج تم نے مجھے بائے نہیں بولا واچ مین اپنی حیرت کو چھپائے بنا اسے پکار بیٹھا شاید آج میڈم نے اسے ڈانٹ دیا ہوگا

واچ مین کی اچانک پکار پر وہ گھبرا کر پیچھے کی جانب مڑی
لیکن یہ کیا ۔۔۔۔؟یہ تونور تھی ہی نہیں بلکہ یہ تو چھوٹی میڈم تھی

واچ مین کے لئے یہ جھٹکا کافی تھا وہ حیرانگی سے اپنی مالکن کووہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھ رہا تھا
جس کے ساتھ ہی اس نے شور مچانا شروع کر دیا تھا باہر شور کی آواز سن کر وہ تیزی سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے لگی اس وقت اس کمرے میں سوائے اس کھڑکی کے اور کچھ نہیں تھا

وہ تیزی سے کھڑکی کے پاس آئی اس کا ارادہ کھڑکی سے باہر کود جانے کا تھا لیکن تب ہی دروازہ کھولا اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور سرد تر سانس خارج کی
°°°°°
تم جانتی ہو تم نے کیا کیا ہے ۔۔۔۔!
بیوقوف لڑکی آخر تمہیں ضرورت کیا تھی کسی لڑکی کو گھر سے بھگانے کی
تمہیں اندازہ بھی ہے کتنی انسلٹ ہوئی ہےآج ہماری تمہیں احساس بھی ہے کہ کتنی بےعزتی کی گئی ہے ہماری وہاں۔

مائیک اپنی کتنی امپورٹنٹ میٹنگ چھوڑ کر تمہیں جیل سے چھڑوانے کے لیے آیا تھاتم اندازہ بھی لگا سکتی ہو کہ کتنا نقصان ہوا ہے آج مائیک کو اور تو اور مائیک نے کتنی رشوت دی ہے اس آفیسر کو صرف تمہیں جیل سے چھڑوانے کے لیے اف مائیک نے کتنی مشکل سے سب کچھ ہینڈل کیا ہے یہ آج اگر مائیک نہ ہوتا تو نہ جانے کیا ہوتا

اس لیے اب بغیر نخرے کیے فورا سے جاؤ اور بہت اچھے طریقے سے اسے تھینک یو بولو ۔
اور سوری بھی کہو جا کر اپنی غلطی کے لیے اپنے ڈیڈ کوآج تمہاری وجہ سے بہت زیادہ انسلٹ ہوئی ہے تمہارے ڈیڈ کی سمرا اسے سمجھاتے ہوئے بولی

وہ میرے ڈیڈ نہیں ہیں موم وہ صرف آپ کے بوائے فرینڈ ہیں ان کا میرے ساتھ رشتہ نہ جوڑیں تو زیادہ بہتر رہے گا

میرا آپ کے بوائے فرینڈ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ خاصی بدتمیز انداز میں بولی
وہ میرا بوائے فرینڈ نہیں بلکہ ہسبینڈ ہے اور اس بات پر یقین کرنے کے لیے میں تمہیں صفایاں نہیں دوں گی سمجھی تم میں تھک گئی ہوں تمہارے سامنے اپنا اور مائیک کا رشتہ پروف کرتے کرتے وہ جھنجھلا کر بولی

مام نکاح نہیں کیا ہے اس نے آپ سے اور جس شادی کو آپ شادی کہتی ہیں وہ شادی نہیں ہے وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی

او واٹ ایور بند کرو اپنی بکواس اور جاکر مائیک کو سوری بولو اس کا شکریہ ادا کرو کہ اگر آج وہ وقت پر جیل نہیں پہنچتا تو تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ وہاں پولیس سٹیشن میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا وہ غصے سے اسے ڈانٹتے ہوئے بولی

اس کے انداز پروہ مسکرائی تھی اچھا کیا ہوتا میرے ساتھ وہاں ۔۔۔وہ لوگ مجھے مارتےپیٹتے میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا مام آپ کے بوائے فرینڈ کے ہاتھوں مار کھانے کی عادت ہے مجھے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی غصے سے بولی

اس نے تمہاری بھلائی کے لیے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا تم کیوں نہیں سمجھتی نور سمرا اب کی بار چلائی تھی ۔
میرے کپڑے پھاڑ کر میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ ذلیل انسان میری کونسی بھلائی کر رہا تھا مام اس کی آواز سمرا کی آواز سے کہیں گنا زیادہ تھی

وہ صرف تمہاری غلط فہمی تھی نور میں تمہیں کیسے سمجھاؤں سمرہ نگاہیں چراتے ہوئے بولی تو نور کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی ۔

اچھا وہ میری غلط فہمی تھی وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی تلخی سے مسکرا دی تھی ۔جب کہ اس کی مسکراہٹ نے سمرہ کو نگاہیں جھکا نے پر مجبور کر دیا
وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے اوپر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپھر بولی
میں بچی ضرور تھی مام مگر اتنی بھی نہیں کہ اس ذلیل انسان کی نیت نہ سمجھ پاتی ۔

میں بہت اچھے طریقے سے جانتی ہوں کہ وہ آدمی میرے ساتھ کیا کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ بھی کہ اس آدمی نے آپ سے یہ شادی والا ڈرامہ کیوں کیا

لیکن آپ کو عادت ہوگئی ہے بار بار میرے منہ سے اس آدمی کی حقیقت جاننے کی تو پھر سنیے
جب میں نے اس کا یہ گھر چھوڑا تب اسے ڈر تھا کہ کہیں میں پولیس میں نہ چلی جاؤں۔ آپ جانتے ہیں ایک 13 سال کی لڑکی کا ریپ کرنا کتنا بڑا جرم ہے ۔نہیں ۔۔۔۔۔؟لیکن وہ بہت اچھے طریقے سے جانتا ہے

اگر میں پولیس میں جاتی تو اس کو ہراسمنٹ کے کیس میں اپنی آدھی زندگی جیل کے اندر گزارنی پڑتی اور وہ جو عیش و عشرت سے اس اتنے بڑے بنگلے میں اپنی زندگی گزار رہا ہے یہ سب کچھ بھی انگلش گورنمنٹ اس سے چھین لیتی ۔

اس نے آپ کی محبت میں پاگل ہو کر آپ سے شادی نہیں کی بلکہ بدنامی کے ڈر سے اور جیل سے بچنے کےلیےکی ہے

اور آج بھی وہ شخص مجھ پر کوئی احسان کرکے مجھے جیل سے نہیں چھڑوا کر لایا ۔
اسی لئے بار بار اس کے احسان مجھ پر واضع کر کے مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اپنے بوائے فرینڈ کی حرکتوں پر غور کریں ۔

وہ حقیقت کا آئینہ اس کے سامنے رکھتی اپنا بیگ اٹھا کر تیزی سے وہاں سے نکلنے لگی تھی جب اچانک ہی دروازے پر مائیک اس سے ٹکرایا اسکے روم روم میں نفرت سی بھر آئی تھی

ارے نور تم ابھی تک گئی نہیں یہاں سے مجھے تو لگا تھا کہ تم جا چکی ہو گی خیر اچھا کیا تم ابھی تک نہیں گئی چلو آؤ مل کر پوری فیملی ڈنر کرتے ہیں وہ خوشگوار لہجے میں انگلش میں اسے دیکھتے ہوئے بولا ۔

مجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کے ساتھ ڈنر کرنے کا اور میں آپ کی فیملی کا حصہ نہیں ہوں وہ کھا جانے والے انداز میں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔

اس کی بدتمیزی پر ثمرہ کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے اسے ٹوکا تو وہ اور زیادہ بدتمیزی کرے گی اسی لئے خاموش رہنا بہتر سمجھا ۔

جب کہ وہ ایک نظر اپنی ماں کی جانب دیکھتی وہاں سے باہر نکل چکی تھی اس شخص کے سامنے تو وہ اپنا ایک لمحہ بھی برباد نہیں کرنا چاہتی تھی

سیم ڈارلنگ تمہاری بیٹی کو آخر میرے ساتھ مسئلہ کیا ہے ۔کبھی بھی وہ لڑکی مجھ سے اچھے سے بات نہیں کرتی اور یقین کرو مجھے اس کا انداز بہت ہرٹ کرتا ہے وہ سمرا کی جانب آتے ہوئے کہنے لگا

وہ بچی ہے نادان ہے ۔تم اس کی باتوں کو دل پر مت لیا کرو ہم ڈنر کرتے ہیں وہ اس کا دھیان نور سے ہٹاتے ہوئے بولی تو مائیک نے صرف ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔۔

دوسری قسط

سیم ڈارلنگ تم نے نور سے بین کے بارے میں بات کی ہے یا نہیں وہ بہت زیادہ پریشان ہے نور کو لے کر تین مہینے ہونے کو ہیں نور کی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا

میں نے آج بین سے بات کرکے اسے یقین دلایا ہے کہ نور کا جواب ہاں ہی ہوگا

لیکن تم کچھ بھی نہیں کر پائی ہو تم جلد سے جلد اس سے بات کرو تم جانتی ہو میرا بھانجا کتنا اچھا ہے وہ تمہاری بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میرا نہیں خیال کہ اسے شادی پر کوئی اعتراض ہوگا وہ صرف ڈیٹ کے لئے ہی منع کر رہی تھی نہ

تم مسلمانوں کا یہ بڑا پرابلم ہے پہلے شادی کرو پھر بات آگے بڑھے گی بعد میں اگر انڈرسٹینڈنگ ہی نہ ہو تو میں کہتا ہوں شادی کا فائدہ ہی کیا ہے لیکن بین تمہاری اور تمہاری بیٹی کی پرابلم کو سمجھتے ہوئے اس کے سامنے شادی کا پر پوزل رکھ رہا ہے

لیکن تم نے نور سے ابھی تک اس بارے میں بات ہی نہیں کی تم بتاؤ نورکو بین کتنا امیر ہے لڑکیاں اس کے دائیں بائیں گھومتی ہیں

اس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے مری جا رہی ہیں لیکن وہ تمہاری بیٹی سے محبت کرنے لگا ہے اور اس کی طرف سے کوئی جواب ہی نہیں مل رہا دیکھو سیم میں تمہیں ایک بات کلیئر بتا دینا چاہتا ہوں

میں آگے فیوچر میں بین کے ساتھ اپنا بزنس شروع کرنا چاہتا ہوں اور میں اس میں کسی قسم کی کوئی پرابلم نہیں چاہتا

تمہیں یہ بات سمجھنی ہوگی اور اپنی بیٹی کو سمجھانی بھی ہوگی ۔تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کہ یہ ڈیل میرے لیے کتنی زیادہ اہم ہے

میں سمجھ سکتی ہوں مائیک تم ٹینشن مت لو میں بات کروں گی نور سے وہ کیا ہے نہ آج کل وہ اپنے ایگزامز کو لے کر تھوڑی پریشان ہے اور پھر اس کی جاب بھی چھوٹ گئی تھی تو مجھے اس وقت بات کرنا کچھ عجیب لگا

تم اسے جاب مل جانے دو اس کے بعد میں سکون سے اس سے بات کروں گی وہ شادی سے انکار نہیں کرے گی تم فکر مت کرو میں اسے ہر حال میں منا لوں گی سمرہ نے اسے یقین دلایا

ٹھیک ہے میں انتظار کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن مجھے جواب ہاں میں چاہیے یہ بات تم اچھی طرح اپنے دماغ میں بٹھا لو

میں اس ڈیل کو کسی بھی طرح ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا میں اس پر کسی قسم کا کوئی رسک لینے کو تیار نہیں ہوں سیم وہ اسے بے حد سختی سے کہہ رہا تھا یقینا یہ ڈیل اس کے لیے بے حد اہم تھی بین اس کا بھانجا تھا

جو کہ پیسے اور رتبے کے معاملے میں اس سے بہت آگے تھا ۔اور اب وہ اس کے ساتھ مل کر بزنس شروع کرنا چاہتا تھا تاکہ بین کی عقل اور اس کے پیسے سے اس کا بزنس بھی اس کے لیول کی ترقی کر سکے

°°°°°

خدارا موم بس کر دیں میں آپ کو ہزار بار کہہ چکی ہوں کہ مجھے اس بین اور اس کے پیسے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہوں

مجھے نہیں چاہیے حرام کے پیسے وہ رکھیں اپنے پاس اپنے پیسے اور نہ ہی مجھے چار دن کی شادی کرنے کی ضرورت ہے

اور اب آپ بہانے بنانے کے بجائے اپنے بوائے فرینڈ کو حقیقت بتائیں میں کبھی بین سے شادی نہیں کروں گی ۔

تو پھر کس سے کروں گی شادی اپنے باپ کے گنوار بھتیجے سے ۔اس سے جس کے ساتھ تمہارا باپ تمہیں ساری زندگی کے لئے بسا دینا چاہتا ہے

وہ ان پڑھ گوار جاھل جو عورت کو اپنے پیر کی جوتی سمجھتے ہیں ان لوگوں کے بیچ گھسنا چاہتی ہو تم

آدھی زندگی حویلی کی چار دیواری کے ایک کمرے میں پڑے رہو کسی غیر مرد کے سامنے مت جاؤ بڑا سا دوپٹہ ہر وقت اپنے اوپر لپیٹ کر رکھو ۔

تمہارے شوہر کے علاوہ تمہیں کوئی غیر مرد نہ دیکھ سکے تف ہے ایسی زندگی پر میں نے پانچ سال تمہارے باپ کے ساتھ برباد کئے ۔

وہ میں تھی جو اس گنوار آدمی کے ساتھ پانچ سال تک اپنا آپ برباد کرتی رہی میں نے تو نہ جانے کیسے اس شخص کو لندن آنے پر مجبور کر دیا ۔

ورنہ میری زندگی بھی شاید ان گنوار عورتوں کی طرح ہوتی جو اس حویلی میں رہتی ہیں

لیکن یہاں آنے کے بعد بھی اس شخص کی باتوں اور روک ٹوک نے مجھے اس سے طلاق لینے پر مجبور کر دیا

تمہارے پیدا ہونے کے بعد بھی اس شخص نے اپنی عادت نہیں چھوڑی وہ شخص کبھی نہیں بدل سکتا اور جس شخص کے ساتھ وہ تمہاری شادی کرنا چاہتا ہے نہ وہ اس سے بھی چار قدم آگے ہے ۔

مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ تم کیسے رہو گی ان سب کے بیچ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ یہ سب کچھ ختم ہوگیا اور تمہارے باپ نے کبھی مڑ کر دیکھا ہی نہیں ۔

اس نے وہاں شادی کرلی ہے اور اس کی ایک بیٹی بھی ہے جو یقینا تم سے زیادہ اہم ہے اس کے لئے تبھی تو اس کے آنے کے بعد اس نے کبھی تمہاری خبر تک نہیں لی ۔

اسی لیے بہتر ہو گا کہ اپنے باپ کے غم سے نکل کر اصل زندگی کی طرف آ جاؤ تم بالغ ہو اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہوں اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتی ہوں اور بین ایک بہت اچھا انسان ہے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا وہ تمہاری زندگی کی ہر خواہش کو پورا کرے گا

مجھے نہ تو آپ کی اس بحث میں انٹرسٹ ہے اور نہ ہی آپ کے بوائے فرینڈ کے اس بھانجے میں

میں کہاں شادی کروگی کیا کروں گی اس کا فیصلہ میں کروں گی کوئی میرے ساتھ زور زبردستی نہیں کرسکتا

اور اگر میرے باپ کو میری ضرورت نہیں ہے تو اب مجھے بھی ان کی ضرورت نہیں ہے میں خوش ہوں اپنی زندگی میں یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں اداسی در آئی تھی

سمرا نے بھی محسوس کر لیا تھا ابھی سمرا کچھ اور کہتی وہ فون رکھ چکی تھی

°°°°°

اسے اپنی ماں پر بھی غصہ آ رہا تھا جو اس کا انکار اپنے شوہر تک پہنچانے کی بجائے بہانہ بنا رہی تھی تین ماہ پہلے وہ اپنی ماں سے ملنے اس کے گھر گئی تھی جب اس کی طبیعت کچھ خراب تھی وہی پر مائک سے ملنے کے لئے اس کا بھانجا آیا ہوا تھا

جو اسے دیکھتے ہی اس پر بری طرح فدا ہو چکا تھا پہلے تو وہ اس کے ساتھ ڈیٹ مارنے کے لیے کافی بے چین رہا لیکن جب اسے پتہ چلا کہ نور اس میں بالکل بھی کوئی انٹرسٹ نہیں دکھا رہی تو وہ شادی کا پرپوزل بیھجنے لگا جس کے جواب میں وہ صاف انکار کر چکی تھی

اسے مائیک کے ساتھ ساتھ اس کے سارے خاندان سے نفرت تھی اس کی وجہ سے اس نے بہت نقصان اٹھایا تھا وہ چار سال کی تھی جب اس کے باپ نے سمرہ کو طلاق دے دی سمرہ رشتے میں اس کے باپ کی کزن تھی لیکن آزادانہ ماحول میں رہنے کی وجہ سے سمرہ کی سوچ بھی کافی زیادہ آزادانہ تھی وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے ماں باپ نے زبردستی اس کی شادی اس کے باپ سرمد سےکر دی ۔

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرمد شاہ پوری کوشش کے باوجود یہ رشتہ بچا نہ سکے انہوں نے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانی اور آخر میں شادی کے بعد بھی اپنا افیئر جاری رکھا وہ سب کچھ برداشت کر سکتے تھے لیکن یہ چیز ان کی برداشت سے باہر تھی

اپنی بیوی کے شادی کے بعد اس آفیئر کو وہ قبول نہ کر سکے اور سمرہ کو طلاق دے دی

طلاق کے بعد چار سالہ نور انگلش گورنمنٹ کے فیصلے پر ہمیشہ کے لئے اپنی ماں کے پاس آ گئی

سرمد نے پانچ چھ بار نور کی کسٹڈی کی اپیل کی تھی لیکن وہ اسے حاصل نہ کرسکے جبکہ کسٹڈی کے بعد ایک بڑی رقم انھیں سمرہ کو دینا لازم کر دی گئی

وہ تقریبا ایک سال تک ہر اتوار کے دن اس سے ملنے آتے رہے اور پھر ایک دن وہ غائب ہوگئے پھر وہ کبھی بھی اسے ملنے کے لیے واپس نہ آئے تھے

اس کی ماں کو ہر ہفتےپیسے ملتے رہے جو کہ اب تک مل رہے تھے لیکن جس کا انتظار نور کی آنکھیں کرتی رہی وہ کہیں کھو گئے تھے

پھر ایک دن اس کی ماں نے اسے بتایا کہ پاکستان جاکر اس کے باپ نے نہ صرف دوسری شادی کرلی ہے بلکہ وہ ایک بیٹی کا باپ بھی ہے جس سے یقینا وہ نور سے زیادہ محبت کرتا ہے تبھی تو وہ اس کی پرواہ کیے بنا اسے چھوڑ کر چلا گیا

وہ تقریبا نو سال کی تھی جب اس کی ماما نے اپنا گھر بیچ کر اپنے بوائے فرینڈ کے گھر رہائش اختیار کر لی اور وہ ا سے بھی اپنے ساتھ لے آئی تھی مائیک کی حرکتیں اسے بہت عجیب لگتی تھی اس کی ماں کے ساتھ اس کا نازیبا حرکتیں اس کی ماں کو عجیب لباس میں محفلوں کی رونق بنانا اسے بہت برا لگتا تھا لیکن شاید اس کی ماں کو ان سب باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا

وہ آزادانہ ماحول میں پلی تھی ان سب چیزوں کو بہت انجوائے کرتی تھی

لیکن پھر ایک دن پانی اس کے سر سے اوپر چلا گیا جب اس شخص نے اس کے کمرے میں آ کر اس کے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی اس وقت وہ اسے نہ صرف برے طریقے سے چھونے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے کپڑے پھاڑ رہا تھا بلکہ اسے بہت بری طرح سے زخمی بھی کر گیا تھا

اس کے شور مچانے پر گھر کے سارے ملازموں کے ساتھ اس کی ماں بھی وہاں آ گئی

اور اس کی عزت پر کوئی داغ لگنے سے بچ گیا لیکن اب وہ اس شخص سے بہت خوفزدہ رہنے لگی تھی اس نے اپنی ماں کو فیصلہ سنا دیا کہ وہ یہاں نہیں رہے گی بلکہ ہوسٹل میں رہے گی اس کا سارا خرچہ اب تک انگلش گورنمنٹ اور اس کا باپ اٹھاتا ہے اس لیے وہ اپنی مرضی کی مالک ہے

مائک کو یہ ڈر لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں وہ اس کی نیت کو سمجھ کر پولیس میں نہ چلی جائے اور یہی وجہ تھی کہ اس نے سمرہ کو اپنی محبت کا یقین دلانے کے لیے اس سے اگلے دن ہی شادی کر لی ۔

لیکن اب اس کے پاس کسی بھی قسم کے کوئی پیسے نہیں آتے تھے کیونکہ وہ 18 سال سے اوپر ہو چکی تھی اس کی 18ویں سالگرہ کے ساتھ ہی اس نے اپنا خرچہ اٹھانا شروع کردیا تھا ایک جاب کے ذریعہ جبکہ جو پیسے باپ کی کسٹڈی کے طور پر اسے ملنے چاہیے تھے وہ اس کی ماں کے پاس جاتے تھے جو اسے کبھی نہ ملے ۔

اور نہ ہی اس نے کبھی ضرورت محسوس کی ان تین ماہ میں وہ دو نوکریاں چھوڑ چکی تھی جب کہ ایک سے پرسوں ہی اسے نکال دیا گیا تھا اور کل ایک ریسٹورنٹ میں جانے والی تھی جہاں اسے اچھی آفر ملی تھی

°°°°°

دیکھو سرمد کون آیا ہے تمہارا شیر آگیا کب سے ڈھونڈ رہے تھے نہ تم اسے دارم سائیں نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا اصغر سائیں نے سب کا دھیان اس کی طرف دلایا تھا

سرمد جو بیڈ پر بے حال پڑے تھے ایک نظر اس کی جانب دیکھ کر مسکرائے تھے نہ جانے کیوں جب بھی وہ دارم کو دیکھتے تھے ان کے دل میں سکون اترتا تھا

بڑی بی بی اور ہمنا چاچی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔

السلام علیکم وہ گھبیر آواز میں سب کو سلام کرتا کمرےکے اندر داخل ہو گیا

چچا سائیں کیسے ہیں آپ۔۔۔؟ وہ ہمنا چاچی کی چھوڑی ہوئی جگہ بیٹھتے ہوئے ان سے پوچھنے لگا ۔

زواش زرنیش بیٹا جاؤ اداسائیں کے لیے کھانا لگاؤ ثانیہ میری جان تم بھی جاؤاپنے پیپر کی تیاری کرو وہ تینوں بچیوں کو وہاں سے اٹھاتے ہوئے بھیج چکی تھیں ۔کیونکہ چاچا سائیں کو دارم سے بہت اہم بات کرنی تھی

سنان اور ساحر دنوں شکار پر گئے تھے اب تک ان کی واپسی نہیں ہوئی تھی ۔

کیا بات ہے کس بات کی پریشانی ہے آپ کو کیوں اپنی طبیعت اس حد تک خراب کر رکھی ہے آپ نے مجھے بتائیں تو سہی اپنی پریشانی کی وجہ آپ کا بی پی خطرناک حد تک ہائی ہے۔وہ ان کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھامے ہوئے ان سے وجہ پوچھنے لگا

بارہ سال دارم سائیں میں تنگ آگیا ہوں اب اور برداشت نہیں ہوتا مجھ سے صرف ایک بار صرف ایک بار اسے اپنے سینے سے لگانا چاہتا ہوں میں وہ سسکتے ہوئے بولے تو ہمناچاچی بھی اپنے منہ پر دوپٹا رکھ کر رونے لگی

بس بہت ہوگیا سرمد سائیں میں نے تمہیں کتنی دفعہ منع کیا ہے کیوں پریشان ہو رہے ہو اپنی بیٹی کیلئے ویسے بھی اب وہ 18 سال کی ہو چکی ہے اب وہ اپنی مرضی کی مالک ہے

میں اگلے ہفتے لندن جانے والا ہوں۔میں تمہاری بیٹی سے ضرور ملوں گا اور اسے واپس آنے کے لیے بھی کہوں گا آگے اس کی مرضی اصغر شاہ نے بھائی کو سمجھاتے ہوئے کہا

اس کی نہیں بابا سائیں ہماری مرضی 18 سال کی ہو چکی ہے تو لے آئیں اسے یہاں پر اب وقت آ گیا ہے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائے بس آزادی ختم وہ گھمبیر انداز میں بولا

دارم سائیں ہوش سے کام لیں آپ جانتے ہیں کہ اس کی ماں کس طرح کی عورت تھی ۔طیبہ بیگم (دارم کی ماں )دبی دبی سی آواز میں احتجاج کرنے لگی

اماں سائیں اس حویلی میں سرمد شاہ ایک ہی ہے دارم شاہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھانا اور سمجھنا اچھی طرح سے جانتا ہے ۔

وہ مونچھوں کو ہلکا سا تاو دیتا اٹھ کر باہر نکل آیا

جبکہ اس کے فیصلے نے سب کو پریشان کر دیا تھا

°°°°

اداسائیں ڈاکٹر نے کہا ہے چاچا سائیں کا بی پی بہت زیادہ ہائی ہے ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا ہوگا حالت دن بدن خراب ہورہی ہے

اوپر سے ثانیہ کو بھی بخار ہے کل اس کا پیپر بھی ہے تو مجھے اس کی بھی ٹینشن ہو رہی ہے آپ اگر بہتر سمجھیں ایک بار اس سے بات کر لیں میرا نہیں خیال کہ وہ صبح پیپر دینے جا پائے گی

ساحر تھوڑی دیر پہلے ہی سنان کے ساتھ شکار سے لوٹا تھا ۔جب دارم سائیں کا چھت پر آنے کا پیغام ملا

تم پریشان نہ ہوساحر میں بات کر لوں گا اس سے تم کل ہی چاچا سائیں کو ہسپتال میں ایڈمٹ کروا دو باقی بابا سائیں لندن جا رہے ہیں اگلے ہفتے چاچا سائیں کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا

اور بتاؤ تمہارا شکار کیسا رہا ۔۔؟کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا ۔

آپ کے ہوتے ہوئے کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے کیا ملک کے چمچوں نے پیچھا تو کیا تھا ۔لیکن نہ جانے کیسے وہاں ہمارے لوگ آ گئے انہوں نے سب کچھ ہینڈل کر لیا سنان کو یقین تھا کہ آپ نے ہی ان لوگوں کو وہاں بھیجا ہے

اور واجد علی کی بیٹی کا نکاح یوں اچانک اتنی سادگی سے کیوں کیا گیا کوئی خبر ہے آپ کو ۔۔۔؟اسے اچانک ہی واجد علی اور اس کی بیٹی کا خیال آ گیا تھا

نہیں میں اپنے کام سے کام رکھتا ہوں ساحرسائیں۔ خیر تم بیٹھو میں ذرا ثانیہ سے مل لیتا ہوں وہ اٹھتے ہوئے بولا تو ساحر صرف ہاں میں سر ہلاتا چائے کا کپ اپنے ہاتھ میں لے چکا تھا

°°°°°

چاچا سائیں نور سے ملنا چاہتے تھے جبکہ وہ عورت انہیں اس کی شکل بھی نہیں دکھانا چاہتی تھی 14 سال پہلے بھی اس نے بہت گیم کھیلی تھی ۔

اس نے بہت ہوشیاری سے نور کی کسٹڈی نہ صرف اپنے نام کروا لی تھی بلکہ وہ اس کا سارا خرچہ بھی خود ہی اٹھانے لگے تھے لیکن کتنی صفائی سے اس عورت نے یہ حق بھی چھین لیا پندرہ سال سے اپنی بیٹی کی شکل تک نہیں دیکھ پائے تھے

ثانیہ نے الگ رو رو کر اپنی حالت خراب کر رکھی تھی کل سے اس کے ایگزیم شروع ہو رہے تھے اور وہ چاہتا تھا کہ وہ اگزیمز ضرور دے وہ کمرے میں دستک دیتے ہوئے اندر داخل ہوا تو دیکھا سامنے بیڈ پر روتی ہوئی ثانیہ کے ساتھ زاوش اور زرنیش بیٹھی اسے حوصلہ دے رہی تھی ۔

جبکہ ثنا آئینے کے سامنے کھڑی تھی اسے دیکھتے ہی زاوش اور زرنیش نے اپنے سر پر دوپٹے ٹھیک کیے اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔

مجھے ثانیہ سے بہت ضروری بات کرنی ہے تم سب جاؤ یہاں سے وہ حکمرانہ انداز میں بولا تو وہ دونوں سر ہلاتی باہر نکل گئی جبکہ ثنا ابھی تک کھڑی اسے دیکھ رہی تھی

میں تو ثانیہ کو سمجھانے آئی تھی کہ پریشان نہ ہو انشاللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور مجھے اب چاچا سائیں کی طبیعت بھی کافی بہتر لگ رہی ہے اگر اللہ نے چاہا تو وہ بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گے اب عمر ہو گئی ہے تو طبیعت تو خراب ہو ہی جاتی ہے وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولی

جاؤ یہاں سے باہر وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے سخت لہجے میں بولا تو ثناء نے ایک نظر ثانیہ کی جانب دیکھا اور کمرے سے باہر نکل گئی اس کا سخت لہجہ اسے ہمیشہ بہت کچھ باور کروا جاتا تھا ۔

اس کے جاتے ہی وہ ثانیہ کی طرف دیکھتا اس سے مخاطب ہوا کہ کل سے تمہارے ایگزیم شروع ہونے جا رہے ہیں میری خواہش ہے کہ تم آٹھویں جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے میڈیکل شروع کرو اب تم بتاؤ کیا تم میری اس خواہش کو پورا کرو گی وہ بات کو گھمانے کا عادی نہیں تھا جو اس کے دل میں چلتا تھا وہ سامنے بیان کر دیتا تھا جس طرح اس وقت کر رہا تھا

ادا سائیں بابا سائیں کو کچھ ہوگا تو نہیں وہ اپنے آنسو روک نہیں پائی تھی

چاچا سائیں کو کچھ نہیں ہوگا گڑیا تم بالکل بے فکر ہو کر اپنے پیپر کی تیاری کرو بابا سائیں لندن جا رہے ہیں وہ اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا

کیا تایا سائیں کسی ڈاکٹر کو لینے جا رہے ہیں

یہ تیرہ سالہ لڑکی اس کے لیے عزیز تھی جس کا انداز اسے وہ ننھا سا وجود یاد کرواتا تھا جو اس کے لیے بہت خاص تھا

لیکن ادا سائیں علاج خود کیسے آئے گا وہ کنفیوز ہوئی

فضول باتوں پر دھیان مت دو اپنی پڑھائی پر غور کرو میں نہیں چاہتا کہ تمہارا دھیان بٹے تم صرف اور صرف اپنی تعلیم پر غور کرو تہمیں ڈاکٹر بنتے دیکھنا تمہارے بھائی کی خواہش ہے یہ بات یاد رکھنا

اپنے ادا سائیں کی ہر خواہش پوری کرنا تمہارا فرض ہے وہ سختی سے کہتا کمرے سے نکل گیا جبکہ ثانیہ صرف جلدی سے ہاں میں سر ہلا سکی

دارم سائیں کی سمجھ کم لوگوں کو ہی آتی تھی وہ کب نرمی سے بات کرتا اور کب اس کا لہجہ سخت ہو جاتا اس گھر کے اندر بھی کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا

ہاں جی تو کیسی لگی پہلی قسط اچھا سا رسپانس دیں اگر یہ ناول پڑھنا ہے تو…..

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back To Top