گوری میم کی چدائی (پہلی قسط ) میں دفتر میں حسب معمول ويلا بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میرے موبائیل کی گھنٹی بجی۔۔۔ دیکھا تو کو ئی انجانا سا نمبر تھا۔۔۔۔ خیر میں نے فون آن کیا اور کان سے لگا کر جیسے ہی ہیلو کہا۔۔۔۔ تو دوسری طرف سے ایک انجان سی آواز سنائی دی… ہیلو ! کیا تم شاہ بول رہے ہو؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمہاری قسم بهائی ! میں شاہ ہی بول رہا ہوں۔۔ تو اس پر وہ کہنے لگا کہ سنا ہے تم نے آنٹیاں چھوڑ کھسروں کی بنڈ مارنی شروع کر دی ہے؟ اس کی بات سن کر مجھے تھوڑا تعجب تو ہوا لیکن میں نے اس بات کا اظہار کیئے بغیر — ترنت ہی جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے بلکل درست سنا ہے جناب — — اس لیئے اگر آپ کی تشریف میں بھی خارش ہو رہی ہے تو ڈیٹول سے بنڈ دھو کر آ جاؤ میری طرف سے اتنی بات کہنے کی دیر تھی کہ اچانک دوسری طرف سے ایک فلک شگاف قہقہہکی آواز سنائی دی۔۔۔ وہ اجنبی کہہ رہا تھا ۔۔۔ اوئے بہن چود – ساری دنیا بدل گئی مگر تو ابھی تک نہیں بدلا۔ اس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ بھائی مرد کی ایک زبان ہوتی ہے ۔ میری اس بات پر اس نے ایک اور فرمائیشی قہقہہ لگایا ۔۔۔ اور پھر کہنے لگا۔ مجھے پہچانا؟ تو میں نے کہا ابھی آپ نے خود ہی ۔۔۔۔میں نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دوسری طرف سے وہ چلا کر بولا۔ بس بس – اب اس آگے کچھ نہیں کہنا … پھر مجھے گالی دیتے ہوئے بولا ۔۔۔ اوئے گانڈو !!! میں عدیل بول رہا ہوں ۔ اس کی بات سن کر میں اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیا … لیکن جب میری میموری میں عدیل نام کا کوئی شخص نہیں آیا تو میں اس سے بولا… سورى !! كون عديل ؟ تو اس پر وہ بڑے رسان سے کہنے لگا۔۔۔ عدیل جو تمہارے ساتھ اسلامیہ سکول میں پڑھا کرتا تھا۔ اس کے منہ سے عدیل کا نام سن کر میں نے ایک بار پھر اپنی یاداشت پر زور دیا۔۔۔۔۔ لیکن میرے زہن میں عدیل نام کا کوئی شخص نہ آیا۔۔ اس لیئے ایک بار پھر میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔ کون عدیل یار ؟؟ تو اس بار وہ تھوڑا جھلا کر بولا…. اوئے کنجرا — میں بول رہا ہوں عدیل۔۔۔ پھر تھوڑا سا ہچکچکاتی ہوئے بولا وہی یار – عدیلہ شیمپو — جیسے ہی اس نے اپنا تعارف عدیلہ شیمپو کے نام سے کرایا ۔۔۔ تو میرے ذہن میں ایک دم سے چھناکا سا ہوا ۔ اور مجھے وہ یاد آ گیا ۔ عدیل ہمارا کلاس فیلو تها جو کہ میٹرک کے فوراً بعد کسی طرح امریکہ چلا گیا تھا اور پھر کافی عرصہ اس نے کوئی خیر خبر ہی نہیں دی اسی لیئے میرے ذہن سے اس کا نام محو ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ۔۔ عدیل کے ساتھ میری دوستی اتنی گہری بھی نہ تھی کہ میں اسے یاد رکھتا ہاں …… کلاس فیلو …… اور دوستوں کا سیم گروپ ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی .نام تو اس کا عدیل تھا لیکن دوستوں کے حلقے میں ۔۔۔ وہ عدیلہ شیمپو کے نام سے مشہور تھا اور اس کی مشہوری کی وجہ یہ تھی کہ سارے دوستوں میں یہ واحد لڑکا تھا جو کہ نہ صرف لن پر شیمپو لگا کر مٹھ مارتا تھا بلکہ ہم سب کو بھی اس بات کی زبردست تلقین کیا کرتا تھا کہ شیمپو لگا کر مٹھ مارا کریں کیونکہ اس طرح کرنے سے مزہ بھی زیادہ آتا ہے … اور جھاگ بھی اچھی بنتی ہے۔۔ اور یہ تلقین اس نے اس قدر زیادہ کی تھی کہ تنگ آ کر ہم نے اس کا نام ہی عدیلہ شیمپو رکھ چھوڑا تھا چنانچہ عدیل کو پہچانتے ہی میں خوشی سے چیختے ہوئے بولا۔۔۔ اوئے گانڈو تو امریکہ سے کب آیا؟ اور پھر اگلے ہی سانس میں اس سے کہنے لگا۔۔ ہور سنا وہاں کسی گوری میم کی چاٹی ؟ یا پھر وہاں بھی شیمپو کے ساتھ مٹھ مارتے رہے ہو ؟ ۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑے فخریہ لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔ تو چاٹنے کی بات کر رہا ہے ۔۔ تیرے بھائی نے تو گوریوں کو جی بھر کے چوپے بھی لگوائے ہیں ۔۔ دوستو ۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ مجھے چوپا لگوانے کا بہت شوق ہے ۔۔۔ چوپا اور وہ بھی گوری میم کا۔۔۔ چنانچہ اس کے منہ سے گوریوں کے چوپوں کا سن کر ۔۔۔ ناجانے کیوں میرے دل میں حسرت کی ایک طويل لہر سی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور میں خواہ مخواہ جل کر کباب ہو گیا…… اور پھر اسی حسرت ذدہ لہجے میں اس سے بولا … کتنی گوریوں کو چوپے لگوائے ہیں؟ تو وہ قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگا بے شمار پھر تھوڑا وقفہ دے کر بولا۔۔۔ تجھے سب بتا دوں گا مسر شاہ ستوری ( جس طرح دوستوں نے شیمپو سے مٹھ مارنے کی وجہ سے عدیل کا نام ” عدیلہ شیمپو ” رکھا تھا ٹھیک اسی طرح دوستوں کے حلقے میں مجھے بھی شاہ سٹوری کے نام سے جانا جاتا تھا اسکی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں ہمیشہ اپنے ذہن میں کوئی سیکس ستورى بنا کر مته مارا کرتا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میں ہر دوست سے اس کی سیکس سٹوری نہ صرف یہ کہ بڑی تفصیل کے ساتھ سنا کرد سنا کرتا تھا بلکہ اس سے کرید کرید کر مختلف سوالات بھی پوچھا کرتا تھا ان کی سیکس سٹویز میں اتنا زیادہ انٹرسٹ لینے کی وجہ سے دوستوں کے حلقے میں میرا نام ہی شاہ سٹوری پڑ گیا تھا۔۔۔۔ وہ ہنستے اور سچی بات تو یہ ہے دوستو کہ اس دور کی دوستوں کے منہ سے سنی ہوئی وہ گرما گرم کہانیاں … بعد میں سیکس سٹوریاں لکھتے ہوئے میرے بہت کام آئیں۔ ( ۔۔۔ ۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب میں نے عدیلے شیمپو سے یہ پوچھا کہ تفصیل سے بتا کہ اب تک کتنی گوریوں کو چوپے لگوا چکے ہو۔۔۔۔ تو آگے سے ہوئے کہنے لگا فکر نہ کر شاہ جی میں تجھے پوری تفصیل سے ساری سٹوریاں سناؤں گا۔۔۔۔۔۔ ۔۔ پھر مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔ یار مجھے پاکستان آئے ہوئے دس پندرہ دن سے زیادہ ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک ایک بھی حرامی مجھ سے ملنے نہیں آیا… تو اس پر میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سالے تم نے كون سا آنے کی اطلاع دی تھی تو وہ جواب دیتے ہوئے بولا کہ۔ …. اطلاع کیسے دیتا ؟ میرے پاس تو کسی کا نمبر ہی نہیں تھا اور اب بھی بڑی مشکل کے ساتھ مجھے قادرے سے تیرا نمبر ملا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔ یہاں آ کر پرانے دوستوں سے ملنے کو بڑا دل کر رہا تھا ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا وہی گھر ہے نہ۔۔۔ تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے جلدی سے بولا ۔۔ نہیں یار وہ تو ہمارا کرائے کاکچھ ہی فاصلے پر واقع ہے میں چھٹی کے بعد تم سے ملنے آؤں گا تو اس پر وہ بولا۔ چھٹی کے بعد کیوں؟۔۔۔ ابھی آتے ہوئے تمہیں کیا موت پڑتی ہے ؟ اس کے بعد وہ کہنے لگا ۔ ایسا کرو کہ تم ابھی اور اسی وقت آ جاؤ آج دوپہر کا کھانا ہم اکھٹے ہی کھائیں گے۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں تمہیں اپنی بیگم سے بھی ملواؤں گا ۔۔۔ پھر معنی خیز لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ امریکہ سے گوری لایا ہوں۔۔۔ گوری میم کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم میں ایک سنسی سی دوڑ گئی اور میں بڑی حسرت کے ساتھ بولا ۔۔ اس سے ملنے کا کیا فائدہ یار!! بهابهی تو انگریزی بولتی ہو گی اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ اپنا باتھ شروع سے ہی انگریزی میں تنگ نہیں بلکہ بہت ہی تنگ ہے میری بات سن کر وہ کہنے لگا ۔۔ مجھے سب پتہ ہے یار۔ لیکن تو انگریزی کی فکر نہ کر — کہ تیری بھابھی کو اردو بھی آتی ہے تو بس جلدی سے آنے والی بات کر اور اتنی بات کرتے ہی اس نے فون رکھ دیا…عدیل نے تو فون بند کر دیا۔۔۔ لیکن اس کے منہ سے گوری میم کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم ایک عجیب سا ہیجان برپا ہو گیا اور میری آنکھوں کے سامنے بلیو مویز میں چوپے لگانے والی وہ ساری کی ساری گوریاں گھوم گئیں جن پر میں سچے دل سے عاشق تها – فون ختم ہونے کے بعد میں اپنے ایک سنئیر لیکن بے تکلف تكلف کولیگ کے پاس چلا گیا۔ اور اسے ساری داستان سنائی – میری بات سن کر وہ کولیگ جو کہ میری حرکات برائے سیکس سے بخوبی واقف تھا پہلے تو بڑے غور سے میری طرف دیکها پهر سنجیده لہجے میں بولا۔۔ تمہارے چہرے کی لالی اور آنکھوں کی چمک بتارہی ہے کہ تم اپنے دوست کی بیوی گوری میم ) کو بلیو موی والی گوریوں سے ملا رہے ہو پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولا ۔ اگر ایسا ہے تو یاد رکھو تم خطا کھا رہے ہو اور وہ اس لیئے کہ ساری گوریاں ایسی نہیں ہوتیں اس کے بعد وہ کولیگ کافی دیر تک مجھے سمجهاتا رہا اور شکر ہے کہ اس کی یہ بات میرے موٹے دماغ میں آ گئی ورنہ میرے نزدیک تو بر گوری میم چالو تھی جو کہ چوپا لگا کر پھدی مروانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتی تھی ۔ چنانچہ اس کولیگ کی بات کو میں نے اپنے پلے سے باندھ لیا۔۔ اور پھر اس کا شکریہ ادا کر کے اُٹھنے ہی لگا تھا کہ اچانک وہ مجھ سے کہنے لگے اچھا یہ بتاؤ کہ تم اس کی بیگم کو منہ دکھائی میں کیا گفٹ دے رہے ہو؟ تو میں حیران ہوتے ہوئے بولا گفٹ کیسا گفت ؟ تو وه سمجھاتے ہوئے بولے۔۔۔ کہ دیکھو یار ہمارے ہاں رسم ہے کہ دلہن کو منہ دکھائی میں کچھ نہ کچھ دیا جاتا ہے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے مجھے اس بارے ایک چھوٹا سا لیکچر دیا .. حسن اتفاق سے اس سینئر کولیگ کا دیا ہوا یہ چھوٹا سا لیکچر بھی میرے موٹے دماغ میں بیٹھ گیا اور میں نے اس کولیگ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے گوری بھابھی کے لیئے بازار سے ایک بہت اچھا سا برانڈڈ سوٹ خریدا اور اسے گفٹ پیک کروا کے ساتھ مٹھائی کا ایک ڈبہ لیا اور پھر عدیل کے بتائے ہوئے اڈریس پر پہنچ گیا۔وہ ایک جدید طرز کا بنگلہ نما گھر تھا جس پر ابھی نیا نیا رنگ و روغن ہوا لگتا تھا۔ چنانچہ اس کے گھر کا باہر سے جائزہ لینے کے بعد میں نے گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک فربہی مائل ادھیڑ عمر کی عورت نے دروازہ کھولا ۔ اور سر سے پاؤں تک میری طرفدیکھنے کے بعد کہنے لگی ۔ آپ کو کس سے ملنا ہے؟ تو اس پر میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی عدیل گھر پر ہے ؟ میری بات سنتے ہی انہوں نے اپنے ہونٹوں پر ایک دلفریب سی مسکراہٹ سجائی اور بڑی خوش اخلاقی سے کہنے لگیں بیٹا! آپ یقیناً شاہ ہو تو آگے سے میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ تب وہ بڑی شفقت سے مجھے راستے دیتے ہوئے بولیں۔ اندر آ جاؤ عدیل تمہارا ہی انتطار کر رہا ہے ۔ اور وہ مجھے ساتھ لیئے ڈرائینگ روم میں آ گئیں اور وہاں بٹھا کر کہنے لگیں۔۔ آپ بیٹھو میں عدیل کو بلاتی ہوں ۔۔ ان کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد عدیل ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔۔۔ اور مجھے دیکھتے ہی ایک فلک شگاف نعره مارا اور پھر بڑی گرم جوشی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مجھ لپٹ گیا کہ۔۔ اوئے شاہ !! تم میں زرا بھی تبدیلی نہیں آئی۔۔۔ اور ابھی تک ویسے کے ویسے ہو۔۔ مجھ سے ملنے کے بعد اس نے ایک نظر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا اس لیئے وہ قدرے اونچی آواز میں بولا — کامان ڈارلنگ ۔ اس کی آواز سنتے ہی ڈرائینگ روم کے دروازے سے ایک مناسب جسم والی سرو قد بلونڈ گوری کمرے میں داخل ہوئی اس نے پتہ نہیں کس کی فرمائیش پر کالا سوٹ پہنا ہوا تھا جو کہ اس پر بہت جچ رہا تھا اور ستم بلائے ستم یہ کہ اس کی قمیض کا گلا بھی بہت کھلا تھا۔ اور کالے رنگ کی اس قمیض میں سے اس کی دودھیا سفید چھاتیاں صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں ۔۔ کا نظارہ پیش کر رہیں تھیں دوپٹے کے نام پر اس نے کپڑے کی ایک دھجی کو اپنے سینے کی بجائے کندھے پر رکھا ہوا تھا اس کے چلنے کا انداز بہت مست تھا زندگی میں فرسٹ ٹائم کسی گوری کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر میں فوت ہونے ہی والا تھا کہ کولیگ کی نصیحت یاد آ گئی۔۔۔۔۔ اور میں نے فوت ہونے کا پروگرم ملتوی کر دیا۔۔۔۔۔ تاہم پھر بھی اسے دیکھ کر میرا دل بڑے ذور سےدھڑکا اور میں منہ کھولے یک تک اس کی طرف دیکھتا رہا ……. اور اس سے پہلے کہ میں کولیگ کی نصیحت بھول کر دوباره اس پر ہزار جان سے فدا ہو جاتا ۔۔۔۔ میں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۔۔۔۔ اپنی نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔ اور میز پر رکھے گفٹس کو اٹھایا اور بڑے ادب کے ساتھ اس قیامت کے حوالے کرتے ہوئے بولا – – ویل کم تو پاکستان بھابھی میرے ہاتھ میں گفٹس کو دیکھ کر اس نے ایک نظر عدیل کی طرف دیکھا …. اور پھر غالباً وہاں سے گرین سگنل ملنے کے بعد اس نے گفٹس کو میرے ہاتھ سے لے کر میرا شکریہ کہتے ہوئے اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔ اس کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے میں جھجھک سا گیا … لیکن پھر کچھ توقف کے بعد میں نے بھی اپنے ہاتھ کو اس کی طرف بڑھا دیا…… اور اس کے ساتھ ہی اپنے کولیگ کی ہدایت کے مطابق ) بڑی مشکل کے ساتھ اپنی نظروں پر کنٹرول کرتے ہوئے ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہاتھ ملانے لگا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ قیامت گفٹس اٹھائے واپس چلی گئی ۔ اس کے جاتے ہی عدیل نے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا کہ کیسی لگی بهابهی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بڑی کیوٹ ہے اس کی کوئی دوسری بہن نہیں ہے؟ میری بات سن کر عدیل نے ایک زبردست سا فرمائشی قہقہہ لگایا اور پھر کہنے لگا۔۔ بہن تو نہیں۔۔۔ البتہ اس کی ایک کزن ہے جو کہ اس سے بھی زیادہ خوب صورت اور سیکسی ہے ۔ لیکن اس کے لیئے تمہیں اسٹیٹس (امریکہ) جانا پڑے گا ۔۔ اور پھر ہنسنے لگا ۔ عدیل کی بات سن کر میں بھی اس کی ہنسی میں شریک ہو گیا۔ اور پھر اس سے بولا یار یہ تو تو بتاؤ کہ تم نے بهابهی کا اسلامی نام کیا رکھا ہے؟ تو آگے سے وہ جواب دیتے ہوئے بولا کہ شادی سے قبل اس کا نام ماریا جوزف تھا چونکہ ہمارے ہاں بھی ماریا نام چلتا ہے اس لیئے امی کے کہنے پر میںنے اس کا نام تبدیل نہیں کیا ۔ ہاں تم اسے ماریا عدیل کہہ سکتے ہو۔ اس کے بعد اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔۔۔ اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے ۔باتیں کرتے ہوئے ابھی ہمیں کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک بار پھر وہی خاتون جو کہ عدیل کی والدہ تھی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں اور ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔ لنچ تیار ہے آ جاؤ کھانے کی میز پر ایک طرف میں اکیلا … جبکہ میرے سامنے والی کرسیوں پر عدیل اور اس کی بیگم اور ان کے ساتھ عدیل کی والدہ بیٹھی تھیں۔ کھانے کھاتے ہوئے بھی ہم سب ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں ماریا میم مطلب ہے مسز عدیل نے ایک لفظ بھی نہیں بولا… لیکن وہ ہماری خاص کر میری اور عدیل کی گفتگو بڑی دل چسپی کے ساتھ سن رہی تھی ۔ اسی دوران عدیل کی امی نے میری طرف دیکھا ۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔ بيتا جی! آپ کام کیا کرتے ہو؟ تو جب میں نے انہیں اپنے ڈیپارٹمنٹ کا نام بتایا تو ….. میرے محکمے کا نام سن کر وہ ایک دم سے ٹھٹھک گئی اور پھر فوراً ہی اگلا سوال داغتے ہوئے بولیں کہ آپ وہاں کس پوسٹ پر کام کرتے ہو؟ اور جب میں نے انہیں اپنے عہدے کے بارے میں بتایا تو آنٹی کے ساتھ ساتھ عدیل بھی چونک کر بولا ۔ اوئے تیری خیر !!… تیری جاب تو بڑی زبردست ہے یار ۔۔۔ اس کے بعد وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی پُر اسرار لہجے میں کہنے لگا۔ … تیرا تو سر بھی کڑاھی میں ہو گا دوست اس کی باتسن کر میں نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرفدیکھا اور بولا — ایسی کوئی بات نہیں ہے یار۔۔۔یہاں پر میں عدیلاور اس کی فیملی کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں کہ یہلوگ ایک دم ظاہر دار مطلب یہ کہ سخت قسم کے دنیا دار اور کھلےماحول کے لوگ تھے اور خاص کر اس کی امی کے بارے میںمشہور تھا کہ وہ محلے میں لوگوں کی حثیت دیکھ کر دوستی لگایاکرتی تھیں ۔ یہی حال عدیل کا بھی تھا وہ بھی ہمیشہ کلاس کےکھاتے پیتے اور امیر قسم کے لڑکوں کے ساتھ دوستی لگایا کرتاتھا۔۔۔۔۔ اسی لیئے تو ہماری کمزور مالی حالت کے پیش نظر اس نےکبھی بھی میرے ساتھ گہری دوستی رکھنے کی کوئی کوشش نہ کیتھی۔ ہاں دوستوں کا سیم گروپ ہونے کی وجہ سے اس کی میرےساتھ بس اچھی ہیلو ہائے تھی اس کے علاوہ اس نے کبھی بھیمجھے کوئی خاص لفٹ نہ کرائی تھی اور اس کی انہی حرکتوں کےپیش نظر ۔۔۔ میں نے خود بھی اس کے قریب ہونے کی کبھی کوششنہ کی تھی۔ ہاں تو دوستو !!! میں کہہ رہا تھا کہ جیسے ہی میںنے ان کو اپنے محکمے اور — عہدے کے بارے میں بتلایا تو میریبات سنتے ہی ماں بیٹے کی آنکھوں میں واضع طور پر ایک چمکسی آ گئی تھی اور پھر اس کے بعد میں نے صاف طور پر محسوسکیا کہ میرے سٹیٹس کو جان کر ۔۔۔ ان کے رویے میں پہلے سے بھیزیاده گرمجوشی آ گئی تھی …… ادھر عدیل کی والدہ کافی دیر تکمجھے ستائیشی نظروں سے دیکھتی رہیں۔ پھر اچانک ہی کہنےلگی… – بیٹا آج تو تم اکیلے آئے ہو لیکن اگلی دفعہ جب (جاری ہے)۔۔۔۔